Story in Urdu - Bachon Ki Kahaniyan, Lambi gardan wala sarrafa aur do shararti bunder

 لمبی گردن والا ژرافہ اور دو شرارتی بندر,

ایک جنگل میں بندروں کی ایک ٹولی رہتی تھی۔ اس ٹولی میں دو بچے بھی تھے، جو بہت زیادہ شرارتی تھے۔ان کے ماں باپ بھی ان کی شرارتوں سے تنگ آگئے تھے

 اسی جنگل میں ایک ننھا ژرافہ بھی رہتا تھا۔ وہ بہت ہی سیدھا سادا اور بھولا بھالا بچہ تھا۔ ایک دن گھاس چرتے چرتے وہ جنگل کے اس حصے میں آگیا جہاں بندروں کی یہ ٹولی درختوں سے پتے اور پھل فروٹ توڑ توڑ کر کھانے میں مگن تھی۔ دونوں چھوٹے شرارتی بندروں نے ژرافہ کو دیکھا تو انھیں حیرت ہونے لگی۔ کیونکہ ان بچوں نے کبھی ایسا کوئی بھی جانور نہیں دیکھا تھا۔ بندر کے ایک بچے نے کہا ارے! دیکھو تو کتنا عجیب و غریب جانور ہے ، آؤ اسے چھیڑتے ہیں دونوں بندر 


کودتے پھلانگتے اس درخت پر پہنچ گئے جس کے نیچے کھڑے ہو کر ژرافہ پتے کھا رہا تھا۔ اس


درخت کی ایک شاخ پر بیٹھ کر دونوں نے ژرافہ سے


کہا اے لمبو ! تمہارا کیا نام ہے....؟ ژرافہ نے بڑی نرمی سے کہا میں ژرافہ ہوں، کیا مجھ سے دوستی کرو گے ؟ تم لوگوں کے نام کیا ہیں؟ دونوں بندر شرارت سے کھکھلا کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ تم سے ہم کیوں دوستی کرنے لگے...؟ کتنے بد صورت ہو تم، مینار کے جیسی گردن اور سیڑھی کے جیسے پیر۔ ہمیں نہیں کرنی ایسے بے ڈھنگے جانور سے کوئی دوستی .....! اتنا کہہ کر دونوں بندر ژرافہ کا مذاق اڑانے لگے۔ ایک بندر نے درخت سے ایک پکا ہوا پھل توڑ کر ژرافہ پر پھینک مارا۔ پھل ژرافہ کے منہ پر لگ کر پھوٹ گیا اور اس کا رس اور گودا ژرافہ کے چہرے پر پھیل گیا۔ یہ دیکھ کر دونوں بندر قہقہہ مار کر ہنسنے لگے اور کودتے پھلانگتے

وہاں سے بھاگ گئے۔ ژرافہ بے چارہ روہانسا ہو کر رہ گیا اور منہ لٹکائے وہاں سے چلا گیا۔ ایک دن دونوں شرارتی بندروں نے یہ طے کیا کہ وہ جنگل میں خوب دور تک اکیلے گھومنے کے لئے چلیں گے۔ صبح صبح جب باقی بندر سو رہے تھے، یہ دونوں شرارتی بندر چپکے سے نکل پڑے۔ کچھ ہی دیر میں وہ بندروں کی ٹولی سے بہتدور نکل گئے۔ جب انھیں زوروں کی بھوک لگی تو ان دونوں نے پیڑوں کی پتیاں اور پھل فروٹ کھا لیے۔ انھیں اس طرح گھومتے پھرتے اور موج مستی کرنے میں بڑا مزہ آرہا تھا۔ دوپہر ہو چلی تھی۔ وہ دونوں گرمی سے بچنے کے لئے ایک درخت کی ہری بھری شاخوں پر جا کر بیٹھ گئے ، اس درخت کے نیچے ایک شیر آرام کر رہا تھا۔ پیڑ کے آس پاس ایک بڑا ہرا بھر امیدان تھا۔ میدان کے کنارے ایک ندی بہہ رہی تھی۔ بندر اس سہانے منظر میں ایسا غرق ھوئے کہ انھیں اس بات کا احساس ہی نہ


ہوا کہ یہاں ایک شیر بھی موجود ہے۔ 

 










 










 لیکن جب شیر اپنے چہرے پر بیٹھی ہوئی مکھیوں کو کو اڑانے کے لئے غرایا تو بندروں نے شیر کو دیکھ لیا۔ شیر کو دیکھتے ہی وہ بری طرح ڈر گئے۔ کچھ ہی دیر بعد انھیں یہ محسوس ہوا کہ ہم درخت کے اوپر محفوظ ہیں۔ چونکہ ان کے اندر شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اس لئے یہاں بھی انھیں شرارت سوجھنے لگی۔ ان دونوں شرارتی بندروں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا اور درخت کا ایک پھل توڑ کر نیچے گرا دیا۔ پھل سیدھا شیر کی ناک پر گرا۔ شیر نے غصے سے دہاڑتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا۔ جب اس نے اوپر کی طرف دیکھا تو اس کی نظر بندروں پر پڑی۔ بندر کھی کھی کرکے ہنس رہے تھے، لیکن وہ زیادہ دیر تک نہ ہنس سکے، کیونکہ شیر آپے سے باہر ہو رہا تھا۔اس نے گرج دار آواز میں دہاڑتے ہوئے کہا کیا تمہیں معلوم نہیں میں اس جنگل کا بادشاہ ہوں۔ فورا اس درخت سے نیچے اترو۔ میں تم دونوں کو کھا کر اس گستاخی کی سزا دوں گا۔  بندروں کو پھر ہنسی آگئی۔ انھیں یقین تھا کہ ہم درخت پر محفوظ ہیں۔ شیر ان کو اس طرح دوبارہ ہنستے ہوئے دیکھ کر غصے سے آگ بگولہ ہو گیا اور اپنے پیروں کو سمیٹ کر اسپرنگ کی طرح تیزی سے اچھلا۔ان دونوں شرارتی بندروں نے دیکھا کہ شیر کا جبڑا کھلا ہوا ہے اور اس کے تیز نوکیلے دانت ان کی طرف ہیں اور وہ بڑی تیزی سے اچھلتے ہوئے بالکل ان کے قریب آگیا ہے۔ دونوں بندروں کے تو ہوش ہی اڑ گئے اور ان کی ساری شرارت دھری کی دھری رہ گئی اور وہ دونوں ڈر کے مارے ایک دوسرے سے بری طرح لپٹ گئے ۔  جس شاخ پر وہ دونوں بندر بیٹھے ہوئے تھے شیر وہاں تک نہیں پہنچ سکا شیر نے دوبارہ چھلانگ لگائی بندروں کی حالت بڑی پتلی ہوگئ تھی وہ ڈر کے مارے چیخنے چلانے لگے لیکن وہاں انکی پکار سننے والا کوئی نہیں تھا وہ تو اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر بھاگ کے آۓ تھے اس درخت کے آس پاس کوئی دوسرا درخت بھی نہیں تھا کہ وہ چھلانگ لگا کے دوسری طرف چلے جاتے شرارتی اور نافرمان بندر بری طرح پھنس گئے تھے اچانک انکے کانوں میں آواز آئ گھبراؤ نہیں میں تم دونوں کو یہاں سے نکال کے لے جاؤں گا چپکے سے میری گردن کے سہارے میری پیٹھ پر اتر آؤ شرارتی بندر کیا دیکھتے ہیں ان کے ٹھیک اوپر 










درخت کے پتوں کے درمیان سے اسی ژرافہ کا   سر نکلا ہوا تھا جس کا ان لوگوں نے خوب مذاق اڑایا تھا بندروں نے ایک دوسرے کو شرمندگی سے دیکھا کہ آج وہی ژرافہ ہماری جان بچانے کے لیے تیار ہے اس ہات سے ژرافہ کو اس دن کی شرارتوں اور مذاق کا بلکل خیال نہیں ہے دونوں بندر اپنی شرارتوں پر بہت شرمندہ تھے ژرافہ نے کہا میرے دوستوں جلدی کرو اگر شیر نے مجھے دیکھ لیا تو وہ ہم تینوں کو کھا جائے گا بندر ڈرتے ڈرتے ژرافہ کی گردن پر سوار ہوگئے اور ژرافہ انکو لے کے تیز رفتاری کے ساتھ وہاں سے بھاگ لیا شیر کو پتا نہیں چل سکا کیا ماجرا ہے لیکن جب شیر کو پتا چلا اس نے ژرافہ کی پیٹھ پر سوار ہو کر دونوں بندروں کو بھاگ نکلتے ہوئے دیکھا تو اس نے دہاڑتے ہوئے ان کا پیچھا کیا۔ بندروں نے پیچھا کرتے ہوئے شیر کو دیکھا تو ان کی جان نکلنے لگی اور وہ بری طرح چیخنے چلانے لگے۔ شیر پوری قوت کے ساتھ بندروں کو پکڑنے کے لئے دوڑ لگا رہا تھا اور غرائے جا رہا تھا۔ ژرافہ نے بندروں کو سمجھایا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں اب تم دونوں بالکل محفوظ ہو ۔ شیر مجھے کبھی نہیں پکڑ سکتا۔ اور سچ مچ ہوا بھی ایسا ہی کہ ژرافہ نے شیر کو کافی پیچھے چھوڑ دیا۔ ایک محفوظ جگہ پر پہنچ کر ژرافہ رک گیا بندر چھلانگ لگا کر اس کی پیٹھ سے نیچے اتر گئے۔ تب ژرافہ نے ان دونوں سے کہا  اس دن تم دونوں نے میری لمبی گردن اور میری ٹانگوں کا بہت مذاق اڑایا تھا ۔ دونوں بندروں نے ژرافہ سے معافی مانگ لی ۔ ژرافہ نے کہا ”دوستو ! معافی کی کوئی ضرورت نہیں۔“ اتنے بڑے دل والے ژرافہ کی یہ باتیں سن کر ان دونوں شرارتی بندروں نے فیصلہ کر لیا کہ آج کے بعد سے وہ کسی کو نہیں ستائیں گے اور کسی کا مذاق نہیں اڑائیں گے۔ انہوں نے ژرافہ سے کہا کہ ہم نے جان بوجھ کر بہت ستایا تھا، آج سے ہم کسی کو بھی نہیں ستائیں گے، نہ کسی کو برا بھلا کہیں گے۔ آج سے تم ہمارے سب سے اچھے  دوست ہو۔ دونوں بندروں کی یہ بات سن کر ژرافہ کو بہت خوشی ہوئی اور وہ اچھے دوستوں کی طرح رہنے لگے

Post a Comment