Story in urdu , Bachon ki Kahaniyan , Naik Dil lakarhara

 نیک دل لکڑہارا 

پرانے زمانے کی بات ہے کسی جنگل میں ایک لکڑہارا رہتا تھا۔ وہ بہت غریب تھا پورا دن لکڑیاں چن کر جمع کرتا رہتا پھر ان کو شہر لے جا کر بیچ دیتا۔ اس طرح وہ بہت تنگدستی میں زندگی گزار رہا تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ نیک دل ، ہمدرد اور ایماندار تھا۔ اس نے کبھی درخت سے ہری بھری شاخ نہیں کاٹی تھی۔ وہ ہمیشہ سوکھی شاخیں جو نیچے زمین پر گر جایا کرتیں ان کو اکھٹا کر تا۔ وہ جانتا تھا ہری شاخ کے توڑنے سے جو لیس دار مادہ نکلتا ہے وہ دراصل درخت کا خون ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ درختوں کو نقصان نہیں پہنچاتا تھا۔ کبھی ہری شاخ نہیں توڑتا تھا کہ درخت کو تکلیف ہو گی۔


یہ نیک دل لکڑہارا صبح ہی صبح لکڑیاں چننے جنگل میں نکل گیا۔ ابھی وہ ادھر اُدھر سے سوکھی لکڑیاں اکٹھی کر ہی رہا تھا کہ عجیب و غریب آواز سنائ دی اس نے آواز پر غور کیا یہ شاہ بلوط کا درخت تھا۔ شاہ بلوط کا درخت رو رو کے کہ رہا تھا " میرا ررخت لیس دار ہے میری نازک شاخیں ٹوٹنے کی وجہ سے ٹپک رہا ہے۔" لکڑہارے نے اوپر دیکھا واقعی ہری ہری شاخیں ٹوٹ کر لٹک رہی تھیں۔ ان سے لیس دار مادہ نیچے زمین پر گر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر لکڑہارے کو درخت پر بہت رحم آیا ۔ اس نے جلدی سے اپنے لباس میں سے کپڑا پھاڑا پھر اس نے آگے بڑھ کر آہستگی سے جھکی اور ٹوٹی ہوئی شاخوں کو اٹھایا اور ان حصوں پر پٹیاں باندھ دیں جہاں سے وہ ٹوٹی ہوئی تھیں۔ پٹیاں باندھنے سے ٹوٹی ہوئی شاخیں پھر سے اپنی جگہ کھڑی ہوگئیں۔ لکڑ ہارے کو اپنے اس عمل سے بہت خوشی ہوئی ابھی وہ جانے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ ٹھٹک کے رک گیا اور بولا " یہ کیا ہے" اس نے حیران ہو کر دیکھا درخت پر سے سونے چاندی کے سکے گر رہے تھے ۔ وہ ہکا بکا دیکھ رہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے زمین پر سکوں کا ڈھیر لگ گیا۔ لکڑہارا سمجھ گیا یہ اسی درخت کی دین ہے اس نے جلدی جلدی سکے  کپڑے میں باندھنا شروع کردیے ۔ اور درخت کا شکریہ ادا کر کے گھر کی طرف چل دیا۔ 

لکڑہارے کے پاس اب اتنی دولت آگئ تھی کہ وہ آرام سے زندگی گزار سکتا تھا۔ اسی گاؤں میں ایک اور لکڑہارا بھی رہتا تھا جو بالکل نیک دل اور ہمدرد نہیں تھا۔ وہ نیک دل لکڑہارے کے پاس آیا اور بولا "اتنی دولت تمہارے پاس کہاں سے آئ". نیک دل لکڑہارے نے پورا ماجرا اس کو سنا دیا  بے رحم لکڑہارے نے سوچا کیوں نہ میں بھی شاہ بلوط کے درخت پر جاکر قسمت آزماؤں ۔ یہ سوچتے ہی بھاگم بھاگ وہ شاہ بلوط کے درخت کے قریب پہنچ گیا اور درخت کے اوپر چڑھ کر شاخیں توڑنے لگا۔ اور سوچنے لگا اب میں بھی ان کو توڑ کر پٹیاں باندھ دوں گا۔ اتنے میں درخت سے آواز آئی " میرا خون لیس دار ہے مجھے چھوڑ دو تم مجھ سے بے شمار دولت لو گے" ۔ بد خصلت لکڑہارا جھٹ بولا "میں بھی تو یہ ہی چاہتا ہوں۔ بے حساب دولت". یہ سنتے ہی شاہ بلوط کا درخت ذور زور سے ہلا جس سے بے رحم لکڑہارا زمین پر گر گیا۔ اس کا گرنا تھا کہ درخت پر سے سونا چاندی کے بجائے لیس دار مادہ سیلاب کی طرح نکلنا شروع ہو گیا دیکھتے ہی دیکھتے بے رحم لکڑہارا اس لیس دار مادہ میں پوری طرح ڈوب گیا۔ اس نے مدد کے لیے پکارا مگر وہاں کون تھا جو اس کی مدد کو آتا۔  

آخر کار بے رحم لکڑہارا اپنی لالچ اور بے رحمی کی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔

Post a Comment