Story in Urdu , Bachon ki Kahaniyan , Sheikh Chilli aur Kala Saya

شیخ چلی اور کالا سایا

شیخ چلی گھر میں بیکار پڑے رہتے کوئ کام کاج نہیں کرتے شیخ چلی جو کام کرتے سب الٹا ہو جاتا ۔ شیخ چلی کی ماں ان کی ان حرکتوں سے بہت پریشان رہتیں اور مکتب میں پڑھنے بھی جاتے تھے مگر مجال ہے جو ایک لفظ بھی پڑھ کر دیا ہو جیسے کورے مکتب میں داخل ہوئے تھے ویسے ہی کورے رہے۔



اخرکار مجبور ہو کر ماں نے مکتب سے اٹھالیا۔ اور کہنے لگیں بیٹا اب تم بڑے ہوگئے ہو۔ کچھ کام کیا کرو اب تم کو کمانا چاہیے ۔ اللہ اللہ کر کے شیخ چلی کی سمجھ میں کچھ آیا آخر کیوں نہ آتا مکتب جانے سے جو جان چھٹ گئ تھی ۔ اب آذاد ہو گئے تھے ۔ اماں سے خوشی خوشی پوچھنے لگے۔ اماں مجھے اب کیا کرنا چاہئے اماں نے ایک کلہاڑی اور ایک رسی دے کر کہا بیٹا روز جنگل جایا کرو اور اور لکڑیاں کاٹ کر لایا کرو۔ ان لکڑیوں کو بیچ کر گھر کے لیے ضروری سامان آیا کرے گا۔ 


شیخ چلی نے خوشی خوشی کلہاڑی اور رسی اٹھائ چل پڑے جنگل کی طرف۔ لکڑیاں کاٹ کاٹ کر ایک جگہ ڈھیر بنالیا اور پھر گٹھا بندھنے لگے۔
جب فارغ ہوئے تو گٹھے کی طرف دیکھ کر سوچنے لگے یہ گٹھا میرے سر پہ رکھے گا کون! اب تو شیخ چلی بہت پریشان ہوئے ۔ لکڑیاں چھوڑ کے بھی نھیں جاسکتے تھے ۔ 
 
جتنی ہوسکتی تھیں اتنی لکڑیاں اکٹھی کر کے گھر کی  طرف روانہ ہوئے ۔ اتنی محنت تو شیخ چلی نے زندگی میں نہیں کی تھی ۔ چند قدم ہی بڑھے تھے کہ گھبرائے اور لکڑیوں کا گٹھا زمین پر دے مارا۔


اور جھنجھلا کے کہنے لگے اس سے اچھا مجھے موت اجاے ۔ اسی وقت ایک کالا سایا نمودار ہوا جس کو دیکھ کر شیخ چلی ڈر گئے اور اس سے پوچھنے لگے " کون ہو بھائی تم" ! یہ سن کر وہ کالا سایا بولا " آپ نے مجھے یاد کیا تھا میں موت کا فرشتہ ہوں" یہ سن کر شیخ چلی کی سانس ہی رک گئی ۔ مگر حوصلہ کر کے بولے " مہربانی کر کے یہ لکڑیوں کا گٹھا میرے سر پر رکھوا دینا". یہ کہ کے سر پٹ دوڑتے گھر پہنچ گئے وہ بھی خالی ہاتھ۔

Post a Comment