سونے کا انڈہ
کسی گاؤں میں منٹو نام کا غریب کسان رہتا تھا وہ اپنے گاؤں میں کھیتی باڑی کرکے اپنا گزارا کرتا اس کے پاس زیادہ کچھ نہیں تھا ایک پرانا مکان ضرورت کا سامان اور کچھ مرغیاں تھیں- وہ اس کے گزر بسر کے لئے بہت تھیں۔
اس کی گزر اوقات ہو ہی جاتی تھی۔ کسان ہر وقت سوچتا رہتا یا اللہ میں اتنا غریب کیوں ہوں میرے پاس تھوڑے بہت پیسے آجائیں تو کتنا اچھا ہو ہر دن اتنی محنت اب برداشت نہیں ہوتی۔
ایک دن منٹو صبح اٹھا اور مرغیوں کو دانا ڈالنے گیا۔ اچانک اس کی نظر ایک انڈے پر پڑی۔ سوچنے لگا یہ انڈا اتنا چمک کیوں رہا ہے پہلے تو کبھی ایسا انڈا نہیں دیکھا جب اس نے غور کیا اس کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ارے یہ تو سونے کا انڈہ ہے۔ میرے اللہ تو نے میری سن لی اور میری غریبی دور کردی پنٹو اگلے دن اس انڈے کو شہر میں ایک سنار کی دکان پر لے جاتا ہے وہ سنار کو کہتا ہے۔ بھائی میرے پاس ایک سونے کا انڈا ہے اور میں اسے بیچنا چاہتا ہوں تم یہ انڈا کتنے میں لو گے یہ سن کر سنار بہت حیران ہوتا ہے اور انڈے کو دیکھ کر کہتا ہے یہ تو بہت قیمتی ہے میں اسے ضرور خریدوں گا کسان سنار سے اتنے زیادہ پیسے ملنے پر وہ انڈا سنار کو دے دیتا ہے اور منٹو پیسے دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے پھر سوچنے لگتا ہے واہ میرے مالک میری تو قسمت ہی کھل گئی ہے اتنا پیسہ تو میں نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔ مرغی روز ایک سونے کا انڈا دیتی اور منٹو اسے شہر میں بیچ کر اپنے لیے بہت سا سامان لے آتا۔ دھیرے دھیرے وہ کافی امیر ہوگیا اس نے اپنی ضرورت کی ہر ایک چیز خریدلی - ان پیسوں سے وہ غریبوں کی مدد بھی کردیتا تھا۔ ایک روز اس کا دوست اس سے ملنے آیا اور کہنے لگا منٹو بھائی کیسے ہو آج کل تو ایک دم بہترین نظر آرہے ہو اتنا مہنگا اور خوبصورت گھر بھی لے لیا۔ کوئی لاٹری لگ گئی ہے
کسان کہنے لگا لاٹری تو بہت چھوٹی سی چیز ہے ہماری تو قسمت ہی کھل گئی ہے۔
میری ایک مرغی ہے جو روز سونے کا انڈا دیتی ہے اور میں وہ انڈا شہر میں بیچ آتا ہوں ۔ منٹو کا دوست کہتا کہ واہ یار تمہاری تو واقعی قسمت ہی کھل گئی ہے ۔ لیکن تم بہت بیوقوف ہو سوچو اگر مرغی روز ایک انڈا دیتی ہے تو اس کے پیٹ میں کتنے سارے انڈے ہونگے ۔ تمہاری جگہ میں ہوتا تو ایک دن میں امیر ہوجاتا خیر چلو میں چلتا ہوں مجھے کام پر جانا ہے ۔ یہ کہہ کر اس کا دوست وہاں سے چلا گیا
۔ منٹو پھر اسی بات پر سوچنے لگا کہ ارے یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں منٹو اب لالچ میں آگیا تھا اس نے سوچا ایک ہی دفعہ میں سارے انڈے نکال لینے چاہئیں ۔ اگلے دن کسان اپنی مرغی کے پاس جاتا ہے تو انڈے کو دیکھ کے کہتا ہے اف ! میرے مالک آج پھر ایک ہی انڈا اب مجھ سے اور انتظار نہیں ہوتا آج میں اس مرغی کا پیٹ کاٹ کر سارے انڈے نکال لوں گا۔ یہ سوچتے ہی منٹو مرغی کا پیٹ کاٹ دیتا ہے مگر پیٹ سے تو کچھ بھی نہیں نکلتا۔ اور روتے ہوئے کہتا ہے یہ میں نے لالچ میں آکر کیا کر دیا منٹو بہت روتا ہے اور اللہ سے معافی مانگتا ہے کہ وہ آئندہ کبھی لالچ نہیں کرے گا۔