سچائی کی جیت
خالد کو بچپن سے ہی تعلیم حاصل کرنے کا بے پناہ شوق تھا۔ خالد نے ابتدائی تعلیم تو اپنے قصبے میں ہی حاصل کی لیکن دین کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے دوسرے شہر جانا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں گاڑیاں اور موٹر کاریں نہیں تھیں اس لئے لوگ قافلوں کی صورت میں پیدل سفر کرتے تھے۔ چنانچہ خالد کی والدہ نے خالد کو بھی دوسرے شہر جانے والے ایک قافلے کے ہمراہ روانہ کر دیا۔ سفر پہ روانہ ہونے سے پہلے خالد کی والدہ نے خالد کو کچھ خوراک اور پچاس اشرفیاں گزر اوقات کے لئے دیں خالد کی والدہ نے یہ اشرفیاں گزر اوقات کے لئے دیں آپ کی والدہ نے یہ اشرفیاں خالد کی قمیض کی تہ میں سی دیں تاکہ محفوظ رہیں والدہ نے چلتے وقت خالد کو خاص طور پر یہ صیحت کی کہ بیٹا ہمیشہ سچ بولنا اور جھوٹ کے قریب نہیں جانا ۔ خالد نے ماں کی اس نصیحت کو غور سے سنا اور سفر پر روانہ ہوگئے قافلے کے لوگ ڈرتے ڈرتے سفر پر روانہ ہوگئے
انہیں اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ کہیں راستے میں ڈاکو قافلے پر حملے نہ کر دیں کیونکہ ان دنوں راستے غیر محفوظ تھے اور ڈاکو اکثر قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے آخر وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے رات کی تاریکی میں
حملہ کردیا۔ تمام قافلے میں افرا تفری اور بھگدڑ مچ گئی اور ڈاکوؤں نے اہل قافلہ کو خوب لوٹا۔ ایک ڈاکو خالد کے پاس آیا اور کہنے لگا لڑکے تیرے پاس کیا ہے خالد نے جواب دیا میرے پاس پچاس اشرفیاں ہیں جو
میری قمیض میں سلی ہوئ ہیں" ڈاکو نے خالد کی اس بات کو مذاق سمجھا اور ہنستا ہوا آگے گزر گیا اتنے میں ایک ڈاکو خالد کے پاس آیا اور وہی سوال کیا۔ خالد نے پھر وہی جواب دیا وہ یہ جواب سن کر حیران ہوا اور خالد کو پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے گیا ڈاکو کے سردار نے تعجب سے پوچھا " لڑکے سچ سچ بتا تیرے پاس کیا ہے خالد نے وہی بات دہرائی خالد کی یہ بات سن کر سردار کی حیرت کی انتہا نہیں رہی
۔خالد نے اپنی جیب سے پچاس اشرفیاں نکال کے ڈاکوؤں کو دکھا دیں